آمد اور جائيداد پرشرح وصیت کيا ہے؟ –
ایک موصی کے لیے ضروری ہے:
- بوقت وفات اپنی جایئداد اوپر ۱/۱۰ سے لیکر ۱/۳ تک حصہ کی ادا کیگی کی وصیت کرے۔
- دوران زندگی جایئداد سےحاصل ہونے والی آمد کے علاوہ تمام ذرالعئے سے حاصل والی آمد کا ۱/۱۰ سے لیکر ۱/۳ حصہ بطور چندہ حصہ آمت ادا کرے۔
- آمد از جایئداد پر چندہ حصہ آمد بمطابق شرح چندہ عام (۱/۱٦) ادا کرے
اگربوقت وصیت کسی شخص کی مستقل ایک بھی آمد نہ ہو، تو وہ اپنی ماہانہ آمد کیا تحریر کرے؟ –
اس صورت میں اسے اپنی اندازہ ماہانہ آمت تحریر کرنی چاہیے یا چھ ماہ یا سال کی آمد کی اوسط تحریر کردینی چاہیے۔
ایسی خواتین خانہ جو موصیہ ہو اور خود کویٓ کام نہ کرتی ہو، عام طور پر ان سے جیب خرچ پر چندہ لیا جاتا ہے۔ کیا اس بارہ میں کوئی رہنما اصول ہیں؟ –
عورتوں کو حسب توفیق رہن سہن کے معیار کے لحظ سے قربانی چاہئے۔ عام طور پر بیوی کےلیئے چندہ وصیت کے ادائہگی کا طریق ہئی ہے کہ اگر اسکی آمدنی کوئ نہ ہو تہ اس کا خاوند مناسب جیب خرچ مقرر کرے اور وہ اسکی بیوی کی آمت متصور ہو اور اس طرح مالی قربانی کے تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر اس جیب خرچ پر چندہ وصیت ادا کرے۔ جیب خرچ کا تعین ہر ایک کے رہن سہن کو مد نظر رکھ کر مقرر کیا جاتا ہے۔
(برطانیا میں کم از کم ماہانہ جیب خرچ ۱۵۰ یورو حضور انوار ایدہﷲتعلیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے مقر رکی گئ ہے۔ جس کے حساب سے سالانہ ۱۸۰ پاونڈ چندہحصہ آمد بنتا ہے)
کیا مصی طالب علم پر اپنے جیب خرچ / وظیفہ پر چندہ وصیت کی ادا ہئگی لازم ہو گی؟ –
طالب علمی و ظیفوں پر شرح کا اطلاق نہیں ہو گا۔ طالباء سے توقع رکھی جائےگی کہ وہ حسب حیثیت خود کچھ رقم معین کر کے جماعت سے افہامو تفہیم کے ذریعہ اس کے مطابق باقاہٓدہ چندہ ادا کریں۔
یونیورسٹی میں تعلیم حصل کرنے والے طالباء کو جر میں حکومت کی طرف سے BAfoG ملتا ہے جو کہ سوشل حیلپ کی حیثیت رکھا ہے۔ اس وجہ سے یونورسٹی کے طالباء کو اس رقم کو نکال کر جو واپس دینی ہے، باقی رقم پر چندہ کی ادا ہیگی کرنی چاہئے۔
ملازمین اپنی تنکحواہ پر مکمل حصہ آمد ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پنشن کے لئےماہانہ یاسہ ماہی مناد پر contribution کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں انیں ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ہے۔ ایسی پینشن پر چندہ کے بارہ میں کیا طریق ہے؟ –
پنشن پر حصہ آمد واجب الاداہو گا۔ کیونکہ ماہانہ contribution تو معمہلی رقم سے ہوتی ہےجب کہریتائرمنٹ پر ماہانہ پنشن تو اس سے کافی زائد ملتی ہے۔ لہذا اگر کوئی اپنی منشن سے اس رقم کو منہا کرنا چاہتا ہے۔ تو صرف اس قدر ہو گی جس قدر وہ اپنی contribution کرتا رہا ہے۔ باقی رقم پر حصہ آمت واجب الاداہو گا۔
کسی شخص کی آمدنی میں سے چندہ کی غرض کے لئے کون کون سے واجبات منہا کرنے کی اجازت ہے؟ –
آمد جس پر چندہ واجب الادا ہے اس سے مراد ہر قسم کی آمد جو مختلف ذرائع سے حاصل ہو۔ صرف درج ذیل واجبات کو اصل آمد سے منہا کرنے کی اجازت ہے۔
- ملازمین کو ملنے والے ایسے الاؤنسز جن کے اخراجات ملازمین کے ذاتی اختیار اور صوابدید پر نہ ہوں۔
- حکومت کی طرف سے عائد کردہ لازمی واجبات مثلاً ٹیکس، لازمی انشورنس، لوکل رسائی۔
- ملازمین کو ملنے والے ایسے الاؤنسز جو مخصوص اخراجات کے لئے ہوں، مثلاً یونیفارم الاؤنس، تعلیمی الاؤنس، چلڈرن الاؤنس وغیرہ۔
- ایسے الاؤنسز جو دفتری امور کی انجام دہی کے عوض ادا ہوں مثلاً D.A-T.A۔
کیا مکانات پر ادا ہونے والی انشورنس کی رقم چندہ کی ادائیگی کیلئے اصل آمد سے منہا ہو گی ؟ –
(1) مکان پر ادا ہونے والی انشورنس (ہاؤس انشورنس کی رقم خواہ لازمی ہو، ایسی رقم چندہ کی غرض سے کسی شخص کی آمد سے ہو گی۔ اگر Mortgage Company سے قرض لینے کے لئے ایسے مکان پر انشورنس کروانا لازمی ہو تو اس انشورنس کا فائدہ خریدار کو جاتا ہے۔ لہذا یہ معمول کے اخراجات شمار ہوں گے۔ اس لئے قرضہ کی کسی قسط کی ادائیگی یا Mortgage Interest یا انشورنس پریمیئم وغیرہ کو چندہ کی غرض کے لئے اصل آمد سے منہا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
(۲) اسی طرح آٹو انشورنس کو بھی اصل آمد سے منہا کرنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ اس کا فائدہ بھی مالک کو جاتا ہے۔
کیا ہیلتھ انشورنس کو چندہ کی غرض کے لئے آمد سے منہا کیا جا سکتا ہے؟ –
ہیلتھ انشورنس کے اخراجات بھی آمد سے منہا نہیں ہوں گے خواہ یہ لازمی ہی کیوں نہ ہو۔ سوائے ایسی صورت کے کہ جس میں ہیلتھ انشورنس ایک حکومتی ٹیکس کی صورت اختیار کر لے یا اس کا فائدہ ایک کمیونٹی پر محیط ہو اور ذاتی طور پر کوئی سہولت اس سے حاصل نہ ہوتی ہو۔
اگر موصی کو کسی غیر منقولہ جائیداد پر بطور کرایہ کوئی آمد وصول ہو رہی ہو تو کیا اس آمد پر وہ چندہ حصہ آمد ادا کرے گا؟ –
جی ہاں موصی ایسی جائیداد سے پیدا ہونے والی آمد پر حصہ آمد بشرح چندہ عام (یعنی 1/16) ادا کرے گا۔
اگر کوئی شخص اپنی آمدنی پر مکمل ہسا عماد ادا کرتا ہے اور نئی جائیداد کے لئے قسطوں کے طور پر ادا کی جانے والی رقم میں کٹوتی نہیں کرتا ہے تو کیا ایسا شخص اس جائیداد پر پورا ہسا جیداد ادا کرے گا؟ اگر ہاں، تو کس قیمت پر؟ اور گھر کی موجودہ مارکیٹ قیمت پر یا اس قیمت پر جس پر اسے خریدا گیا تھا؟ –
- جب کسی شخص کے پاس ایک ہی وقت میں جائیداد خریدنے کے وسائل نہیں ہوتے ہیں تو وہ اسے خریدنے کے لئے قرض حاصل کرتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی کے دوران اس جائیداد پر ہسا جیداد ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ قرض کی ذمہ داری قبول کرے گا اور تشخیص کے وقت اس جائیداد کی قیمت کے مطابق ہسا جیداد ادا کرے گا۔ کسی کی زندگی کے دوران حاصل کیے گئے قرضوں کو شمار نہیں کیا جائے گا (جیسا کہ ہر کوئی بار بار قرض حاصل کرتا ہے اور انہیں واپس کرتا ہے)۔
- ایک شخص سب سے پہلے آمدنی کا ذریعہ پیدا کرتا ہے اور اس پر ہسا عماد ادا کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی بقیہ آمدنی سے یا تو تیار پیسے سے یا قسطوں میں جائیداد خریدتا ہے۔ اس مسی کی وفات کے بعد اس مال پر واسیات کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کے پاس یہ آسان آپشن بھی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو یہ رقم اپنی زندگی کے دوران ادا کر سکتے ہیں۔
- ہسا جیداد کی شرح وہی ہوگی جو موسی نے اپنے لئے منتخب کی تھی یعنی 1/10 سے 1/3 کے درمیان۔
- ہسا جیداد موجودہ مارکیٹ ویلیو پر قابل ادائیگی ہوگی جب باضابطہ تخمینہ لگایا جائے گا سوائے اس صورت میں کہ موسی نے خریداری کے وقت اسی جائیداد پر ہسا جیداد کو ادائیگی کی ہو۔
منقولہ جائیداد از قسم شیئرز اور اسی طرح کی دوسری Investments پر وصیت کی ادائیگی کا کیا طریق ہو گا؟ –
(۱) ایسی جائیداد (Shares) اپنی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق جائیداد شمار ہو گی اور اس پر حصہ جائیداد واجب الاداء ہو گا۔
(۲) نیز ایسی جائیداد سے ملنے والے منافع پر حصہ آمد بمطابق شرح دینا ہو گا۔ (1/10 کے حساب سے یا جو موصی نے اپنی شرح مقرر کی ہو) یہی ہدایت ہر قسم کی Investments پر بھی لاگو ہو گی۔
وصیت کرواتے وقت موصی اپنے ملکیتی مکان پر کس شرح سے وصیت ادا کرے گا؟ –
چندہ وصیت کی کم سے کم شرح 1/10 اور زیادہ سے زیادہ 1/3 ہے۔
ہر شخص اس کے مابین اپنی حیثیت کے مطابق کسی بھی شرح پر حصہ آمد اور حصہ جائیداد مقرر کر کے اور دفتر کو اطلاع کر کے اس کی ادائیگی کر سکتا ہے۔
کیا کار موصی کی جائیداد کے طور پر شمار ہو سکتی ہے؟ –
عام روز مرہ استعمال کی اشیاء کی طرح کار بھی موصی کی جائیداد شمار نہیں ہو گی۔ سوائے اس کے کہ موصی کی کوئی اور جائیداد نہ ہو اور وہ از خود اپنی رضامندی سے کار یا اس طرح کی دوسری اشیاء پر حصہ جائیداد ادا کرنے کی خواہش کرے۔
کسی موصی کی جائید او زیادہ تر اس طرح کی اشیاء پر مشتمل ہو۔
کسی موصی کے پاس اس طرح کی بہت سی اشیاء کا قیمتی ذخیرہ ہو ، جسے اس کی جائیداد متصور کیا جاسکے۔
کیا روز مرہ استعمال کی اشیاء مثلائی وی، کمپیوٹر ، گاڑی و غیرہ دوران وصیت بصورت جائیداد لکھوائے جاسکتے ہیں؟ –
مندرجہ بالا اشیاء گھریلو استعمال کے زمرے میں آتی ہیں۔ لہذا ان اشیاء پر وصیت لاگو نہیں۔ سلائی مشین پر بھی وصیت لاگو نہ ہے۔ اسی طرح کیمرہ ، ٹیپ ریکارڈر ، وی سی آر و غیرہ بھی گھریلو استعمال کی اشیاء ہیں۔
بیرون ممالک میں اکثر جائیداد میاں بیوی کے نام پر (نصف نصف) مشترکہ ہوتی ہے ایسی صورت میں اگر ان میں سے صرف ایک موصی ہو تو اس پر کتنے حصہ کی وصیت واجب الادا ہے؟ –
(۱) اگر جائیداد کے حصول میں ہر دو میاں بیوی کی رقم برابر لگی ہوئی ہے اور ان میں سے موصی صرف ایک ہے تو اس کو نصف جائیداد پر حصہ جائیداد واجب الادا ہو گا۔
(۲) لیکن اگر صرف ملکی قانون کی وجہ سے حصہ دار ہیں اور ان دونوں میں سے صرف ایک کی رقم لگی ہوئی ہے تو جس کی رقم لگی ہے اور وہ موصی ہے ، تو پوری جائیداد پر حصہ جائیداد ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ اگر دوسرا فریق موصی ہے جس کی رقم نہیں لگی ہوئی تو یہ جائیداد اس کی شمار نہ ہو گی ، اور نہ ہی اس پر اس کا حصہ جائیداد واجب الادا ہو گا۔
(۳) ملکی قانون شریعت پر لاگو نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس (ملکیت) کی وضاحت کی جانی ضروری ہو گی۔ پہلے فریق کی وفات کے بعد ترکہ شمار ہو کر اگر دوسرا فریق موصی ہو تو اس کو شرعی حصہ کے مطابق وصیت ادا کرنا ہو گی۔
اگر ہسا جیداد کو کسی خاص جائیداد پر ادائیگی کی گئی ہے، اور اس کے بعد وہ جائیداد فروخت کر دی جاتی ہے اور ایک نئی جائیداد خریدی جاتی ہے، تو کیا ہسا جیداد نئی جائیداد پر واجب الادا ہوگا؟ –
مندرجہ ذیل کا اطلاق جائیداد جیسے زمین، مکان، تجارتی پلاٹ وغیرہ فروخت کرکے حاصل ہونے والی رقم پر ہوگا:
- اگر کوئی نئی جائیداد اتنی ہی یا اس سے کم رقم سے خریدی جاتی ہے تو اس پر حسٰی جیداد کا اطلاق نہیں ہوگا۔ البتہ اگر اس جائیداد سے کوئی آمدنی حاصل ہوتی ہے تو حسٰی عماد کو اس پر (1/16 کی شرح سے) ادا کرنا ہوگا۔
- اگر نئی جائیداد خریدنے کی غرض سے پچھلی جائیداد کی فروخت کی گئی رقم میں مزید رقم شامل کی جائے تو ہسا جیداد نئی جائیداد پر اس اضافی رقم کے تناسب سے لاگو ہوگا جو اسے خریدنے کے لئے شامل کی گئی تھی۔ مکمل ہسا عماد اس جائیداد سے حاصل ہونے والی کسی بھی آمدنی (1/16 کی شرح پر) پر بھی واجب الادا ہوگا۔
- جس آمدنی پر ہسا عماد کو پہلے ہی ادائیگی کی جا چکی ہے، اگر اس کا ایک حصہ بچت کے طور پر مختص کیا جاتا ہے، تو ہسا جیداد اس بچت پر واجب الادا نہیں ہے۔ تاہم، حسٰ عماد اس طرح کی بچت سے حاصل ہونے والی کسی بھی آمدنی یا منافع پر واجب الادا ہوں گے۔
زیورات فروخت کر کے حاصل کرنے والی اشیاء کے متعلق کیا صورت ہو گی ؟ –
ایسے زیورات جن پر حصہ وصیت ادا کیا جا چکا ہے، کو فروخت کر کے اگر کوئی نئے زیورات اسی قدر رقم سے خریدے جائیں جتنے میں پہلے فروخت کئے گئے تھے تو ایسی صورت میں نئے خرید کردہ زیورات پر حصہ وصیت واجب الادانہ ہو گا۔ البتہ دفتر وصیت کو یہ اطلاع واضح طور پر دینا ہو گی کہ مندرج نئے (نئے زیورات کی قسم اور وزن کی تفصیل ساتھ منسلک کریں) زیورات سابقہ زیورات کی فروخت سے حاصل شدہ رقم سے خریدے گئے ہیں۔ لیکن اگر فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں مزید کچھ رقم ڈال کر نئے زیورات خرید لئے جائیں تو ان نئے زیورات میں نئی ڈالی گئی رقم کے تناسب سے حصہ وصیت واجب الادا ہو گا جس تناسب سے قم ڈالی گئی ہو۔
کیا ایسی جائیداد جو مار گیج / قرض پر لی گئی ہو ، نئی وصیت کرتے وقت ایسی جائیداد وصیت فارم میں درج کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ –
ایسی کوئی بھی جائیداد جو مار گیج / قرض پر لی گئی ہو ، وہ وصیت کنندہ کی ہی جائیداد تصور ہو گی اور اس کا اندراج وصیت کرتے وقت وصیت فارم میں کیا جانا ضروری ہو گا۔ اس کے علاوہ ایسی جائیداد کی اندازہ مالیت اور ایڈریس بھی درج کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ اگر بعد وصیت بھی ایسی کوئی جائیداد خریدی جائے تو اس کی اطلاع مرکز کو کرنا ضروری ہو گا۔
مار گیج / قرض پر لی گئی جائیداد کے متعلق اصولی طرز عمل کیا ہے ؟ –
جو جائیداد قرض پر لی گئی ہو اس پر وصیت کی ادائیگی کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ” کا ارشاد :
”اس ضمن میں اصولی طرز عمل یہ ہے کہ جو شخص زندگی میں اپنی جائیداد کا حصہ وصیت ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے بعض شرائط کے ساتھ منظور کر لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے اپنی جائیداد پر اتنا قرض دینا ہے، یہ منہا کر لیا جائے اور بقیہ پر حصہ وصیت کی ادائیگی ہو جائے تو ایسے معاملے میں بعض پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ان پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے عام طور پر یہی بہتر ہے کہ جس نے قرض پر جائیداد بنائی ہو اس جائیداد کا حصہ وصیت اس کی زندگی میں اسی صورت میں قبول کیا جائے کہ وہ قرض کی ذمہ داری اپنی ذات پر رکھے اور پوری جائیداد کی قیمت پر حصہ وصیت ادا کر کے فارغ ہو جائے۔
اگر وہ قرض کو منہا کر کے حصہ وصیت ادا کرنا چاہے تو منظوری کی صورت میں اس کا مطلب صرف یہ ہو گا کہ یہ حصہ وصیت صرف اس جائیداد کا ہوا ہے جس پر کسی قسم کا قرض نہیں تھا۔ اور جس جائیداد پر قرض ہے اس کا معاملہ وفات کے دن تک ملتوی سمجھا جائے گا۔ یعنی اگر اس وقت تک قرض ادا کر دیا گیا ہو تو جائیداد کے اس حصہ کی وصیت کا مطالبہ وفات کے بعد کیا جائے گا۔ کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں قرض کے عذر پر اس حصہ کی وصیت ادانہ کی تھی۔ اگر کچھ قرض باقی ہو تو پھر اس جائیداد کا تخمینہ کر کے اس میں سے قرض منہا کر لیا جائے اور بقیہ قیمت جائیداد پر وصیت واجب الادا ہو گی۔ یہ اصولی طرز عمل ہے اس کا سب پر اطلاق ہو گا“ (خط محررہ 1990-01-28))
Mortgage پر لی گئی جائیداد کی تشخیص کا کیا طریقہ کار ہے؟ –
ا جواب ہر ایسی جائیداد جو Mortgage پر خریدی گئی ہو اس کے حصہ جائیداد کی ادائیگی کے دو ہی طریق ہیں:
- اگر موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا حصہ جائیداد ادا کرنا چاہے تو ایسی جائیداد کی با قائدہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق تشخیص ہوتی ہے اور Mortgage کی رقم منہا نہیں کی جاتی۔ کیونکہ قرضہ کی زندگی میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
- اگر کوئی موصی اپنی زندگی میں اپنی کسی جائیداد کا حصہ ادا نہیں کرتا تو وفات کی صورت میں پہلے قرضہ ، پھر وصیت، پھر وراثت ہوتی ہے۔ اس صورت میں اگر وفات کے وقت ایسی جائیداد جس پر حصہ جائیداد قابل اداہو اس پر اگر کوئی Mortgage کی اقساط رہتی ہیں تو وفات کے وقت اس جائیداد کی جو مالیت ہو گی اس میں سے Mortgage کی رقم منہا کر کے بقیہ رقم پر حصہ جائیداد ادا ہو گا۔
کیا کوئی موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کی تشخیص کروا کر اس پر واجب الادار قم کی ادائیگی کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے تو کس شرح پر نیز کیا تشخیص کروانے کے بعد مکمل ادائیگی کرنے کی کوئی معیاد مقرر ہے؟ –
- جی ہاں موصی اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کی تشخی کرواکر اس پر حصہ جائیداد ادا کر سکتا ہے۔
- ادائیگی کی شرح موصی ازخود مقرر کر تا ہو (مقررہ شرح کے مامین) نیز مجلس کارپرداز سے اس کی منظوری بھی لازم ہے۔
- تشخیص مکمل ہو جانے کے بعد ہر قسم کی جائیداد کی ادائیگی دو سال میں کرناضروری ہے۔
- رہائشی مکان کی صورت میں یہ معیاد 5 سال تک کی ہو سکتی ہے۔ اگر موصی خود اس میں رہائش پذیر ہے۔
جائیداد جو کسی موصی کے نام ہو مگر وہ مکمل طور پر اس کی ملکیت نہ ہو تو کیا موصی اس جائیداد پر چندہ حصہ جائیداد ادا کرے گا؟ –
اگر جائیداد مکمل طور پر موصی کی ملکیت نہ ہو تو اس جائیداد میں سے صرف اس کے ملکیتی حصہ پر حصہ جائیداد ادا کر نالازمی ہو گا۔ لیکن اگر اس جائیداد میں
سے موصی کا کچھ بھی حصہ نہ ہے بلکہ موصی کا محض نام استعمال ہو رہا ہے تو اس کی اطلاع مجلس کار پر داز کو دینا ہو گی۔
اگر موصی کسی قرض کی ہوئی رقم سے خریدے گئے مکان پر اقساط ادا کر رہا ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اسکی تشخیص کر وا کر حصہ جائیداد ادا کر دے تو کیا وہ خریدی گئی جائیداد کی کل مالیت پر حصہ جائیداد ادا کرے گا یا صرف اس حصہ پر جس کی اس نے ادائیگی کر دی ہے؟ –
حصہ جائیداد در حقیقت موصی کی وفات پر ادا کرنا ہوتا ہے۔ تاہم پیچیدہ اور غیر یقینی صور تحال سے بچنے کیلئے موصی کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اپنی
زندگی میں ہی حصہ جائیداد ادا کر لے۔
سو اگر موصی اپنی زندگی میں ہی حصہ جائیداد ادا کرنا چاہتا ہے تو قرض پر لی گئی جائیداد بھی اس کی جائیداد متصور ہو گی۔ اور اسے اس کی رائج الوقت قیمت پر
حصہ جائیداد ادا کر نالازم ہو گا۔ لیکن اگر قرض کی مکمل ادائیگی سے قبل ہی اس کی وفات ہو جائے تو کل مارکیٹ ویلیو میں سے بقیہ واجب الاداء قرض کی
رقم منہا کر کے حصہ جائیداد ادا کیا جائے گا۔
اگر کسی موصی نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد پر حصہ جائیداد ادا کر دیا ہو، تو کیا اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء اس جائیداد پر دوبارہ اس ادا کریں گے ؟ –
اگر موصی نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد پر حصہ جائیداد ادا کر دیا ہے تو اس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو اس جائیداد پر دوبارہ حصہ جائیداد ادا نہیں کرنا ہو گا۔
موصی کی وفات کی صورت میں حصہ جائیداد کی ادائیگی کا کیا طریق ہو گا؟ –
موصی کی وفات کے وقت پر حصہ جائیداد فوری ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اگر اس کے ورثاء فوری ادائیگی نہیں کر سکتے تو ایسی صورت میں ان کی طرف سے کوئی قابل اعتماد ضمانت پیش ہونے پر مجلس کار پر داز ایسے موصی کو استثنائی طور پر تدفین کی اجازت دے سکتی ہے۔ تاہم یہ ضمانت زیادہ سے زیادہ ایک سال کی مدت کیلئے ہو گی۔ اس عرصہ میں مکمل ادائیگی ہو ناضروری ہے۔
کیا کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ (راس المال) وصیت کنندہ کی جائیداد شمار ہوگا؟ اور کیا اس کا اندراج وصیت فارم میں کیا جانا ضروری ہے؟ –
کاروبار میں لگا ہوا سرمایہ (راس المال) وصیت کنندہ کی جائیداد شمار ہوگا۔ اور اس کی مکمل تفصیل کا وصیت فارم میں درج کرنا ضروری ہوگا۔
کاروبار سے حاصل ہونے والی آمد پر چندہ وصیت کس شرح سے ادا کرنا ضروری ہوگا؟ –
کاروبار سے حاصل ہونے والی آمد پر موصی کا اپنی مقرر کردہ شرح کے مطابق ادائیگی کرنا ضروری ہوگا۔ (نہ کہ چندہ عام کی شرح سے) زندگی میں وصیت کی ادائیگی کاروبار سے حاصل ہونے والی آمد سے ہوگی۔ راس المال یعنی کل اثاثے منفی کل Liability پر ادائیگی وفات کے وقت ہوگی یا اگر موصی خود زندگی میں اس پر چندہ کی ادائیگی کرنا چاہے۔ Working Capital پر چندہ نہیں ہوتا۔
کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر چندہ ہسا عماد کو کس قیمت پر ادا کیا جائے گا؟ –
ایک موسی چندہ واسیات کو اس شرح پر ادا کرے گا جو اس نے وصیت میں ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے ، نہ کہ چندہ ام کی قیمت پر۔ موسی کی زندگی کے دوران، واسیات صرف اس آمدنی پر ادا کی جائے گی جو اس کے کاروبار سے حاصل ہوتی ہے. خالص اثاثوں یعنی کل کاروباری اثاثوں پر ادائیگی اس کی موت کے بعد کی جائے گی، یا اگر کوئی موسی اسے اپنی زندگی کے دوران ادا کرنا چاہتا ہے۔ ورکنگ کیپیٹل پر کوئی چندہ نہیں ہے۔
کیا بلڈنگ کنسٹرکشن میں استعمال ہونے والی مشنری، شٹرنگ میٹریل بطور جائیداد وصیت میں درج ہو گا؟ –
کسی بھی قسم کا کاروبار ہو چاہے وہ فیکٹری / مل یا کنسٹرکشن کمپنی ہو، وہ صرف اس حد تک موصی کی جائیداد شمار ہو گی۔ جس حد تک موصی کا حصہ ہو گا۔ مثلاً اگر کسی فیکٹری مل یا کنسٹرکشن کمپنی کی کل مالیت اس کے اثاثے، بنک بیلنس وغیرہ کی مالیت ایک کروڑ ہو اور اس کاروبار کے ذمہ واجب الاداء بنک کا / قرضہ اور دیگر واجبات کی مالیت ۲۰ لاکھ ہو تو موصی کا حصہ ۴۰ لاکھ روپے بنے گا۔ اور وہ اس کی جائیداد شمار ہو گی۔ جس پر وہ حصہ جائیداد ادا کرے گا۔ یعنی کل اثاثے منفی کل قرضہ اور دیگر واجبات – موصی کا حصہ جس پر چندہ حصہ جائیداد ادا ہو گا۔ کاروبار پر حصہ جائیداد عموماً موصی کی وفات پر ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی زندگی میں ادا کرنا چاہے تو مندرجہ بالا طریق کے مطابق اسکے کاروبار کے تمام اثاثے جات کی تشخیص کے بعد اس کمپنی یا کاروبار کے ذمہ قرض اور دیگر واجبات کو منہا کر کے بقایا اثاثہ جات پر حصہ جائیداد ادا ہو گا۔
کیا مقامی مقبرہ مومیان کے انتظام و انصرام اور تدفین کیلئے وہی قوانین ہیں جو بہشتی مقبرہ ربوہ کیلئے ہیں یا ان سے کچھ مختلف ہیں؟ –
(۱) مقبره موصیان میں تدفین کے قواعد و شرائط مکمل طور پر وہی ہیں جو کسی موصی کی بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لئے لازمی قرار دیے گئے ہیں۔
جیسا کہ قواعد میں درج ہے کہ کسی موصی کی تدفین سے قبل اسکے حصہ آمد کی ادائیگی مکمل طور پر لازمی ہو گی۔ البتہ جائیداد کے بارہ میں استثناء رکھا گیا ہے۔ اگر کسی موصی کا حصہ جائیداد مکمل ادانہ ہو ا ہو تو اسکی ادائیگی کے بارہ میں قابل اعتماد ضمانت لے لینے پر تدفین ہو سکے گی۔ کسی بھی موصی کی وفات پر تدفین سے قبل ضروری ہے کہ موصی کے حساب حصہ آمد و جائیداد کے بارہ میں مرکز سے حساب منگوا کر اس کی روشنی میں سابقہ بقایا جات وصول کئے جائیں۔
(۲) بیرون ممالک میں جو مقبرہ موصیان قائم ہیں ایسے مقبروں کو بہشتی مقبرہ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ مقبرہ موصیان کہلاتے ہیں۔
(۳) مقبرہ ہائے موصیان بیرون کے انتظام و انصرام کے لئے جو کمیٹی بنتی ہے۔ اس کا صدر نیشنل امیر جماعت اور سیکرٹری، نیشنل سیکرٹری وصایا ہوتا ہے۔
نیشنل سیکرٹری مال اور مبلغ انچارج بھی اس کے ممبر ہوتے ہیں۔ کل ممبران کی تعداد پانچ سے سات تک مناسب ہوتی ہے۔ اور قورم تین ممبران کا ہو گا۔
اس کمیٹی کا یہ کام ہو گا کہ وہ اپنے ملک میں وصیت کی تحریک کرتی رہے۔ اور موصیان کی تدفین اور مقبرہ موصیان سے متعلقہ امور سر انجام دے۔
کسی ملک کے حالات کے پیش نظر کیا یہ ممکن ہے کہ تدفین کی ذمہ دار کمیٹی قبرستان کی دیکھ بھال کے لیے موسی کے ورثاء سے وصول کی جانے والی رقم کا تعین کرے کیونکہ عام قبرستان بھی تدفین کے لیے کچھ رقم وصول کرتے ہیں؟ –
اگر کسی ملک میں اس طرح کی ضرورت پیش آتی ہے تو کمیٹی کو قومی امیر کے ذریعہ مرکز کو اپنی مخصوص سفارشات پیش کرنی چاہئے۔ اس کے بعد مرکز اس معاملے پر غور کرے گا اور کسی فیصلے پر پہنچے گا۔
ترکہ میں تجہیز اور تدفین کے اخراجات وضع کرنے کے بارہ میں شرعا کس حد تک جواز ہے؟ –
حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے ہی وصیت فارم کے شروع میں تیق اول کے تحت موصی درج ذیل اقرار کرتا ہے کہ
”میرے مرنے کے بعد نعش کو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کرنے کیلئے قادیان پہنچایا جائے۔ بشر طیکہ ۔۔۔ اور نعش کو قادیان پہنچانے کے اخراجات اگر میں فوت ہونے سے پہلے خزانہ صدرانجمن احمد یہ میں جمع نہ کرو اسکا تو میری جائیداد مترو کہ میں سے وضع کئے جائیں۔ لیکن ایسے اخراجات کا اثر اس حصہ جائیداد پر نہ پڑے گا جو میں اس وصیت کی رو سے صدر انجمن احمدیہ کو دیتا ہوں۔“
اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الرابع سے اس بارہ میں سوال کیا گیا تو حضور نے فرمایا:
”سید نا حضرت اقدس مسیح موعود کے زمانہ میں تجہیز و تدفین وغیرہ امور کے بارہ میں موصی جو اقرار کرتے تھے وہی جاری رہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔“
وصیت لکھنے کی کم از کم عمر کیا ہے؟ –
ایک احمدی جو اکثریت کی عمر (جو عام طور پر 15 سال ہے) حاصل کر چکا ہے وہ واسیات بنانے کا اہل ہوگا۔ البتہ جب اکثریت کی قانونی عمر شریعت کے مقرر کردہ عمر سے مختلف ہو تو قانون کے مطابق اکثریت کے حصول کے بعد واسیات کی تجدید کی جائے گی۔ (واسیات قاعدہ 20)
اگر کسی شخص کی کوئی آمد نہ ہے تو کیا وہ وصیت کر سکتا ہے؟ اگر کر سکتا ہے تو کس شرح سے اپنی وصیت ادا کرے گا؟ –
ایسا شخص جس کی کسی قسم کی آمد یا جائیداد نہ ہے، اس کے لئے وصیت کرنا ضروری نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی شخص کے پاس مناسب جائیداد ہے لیکن آمد کا کوئی ذریعہ نہ ہے (مثلاً شادی شدہ گھریلو خاتون) تو وہ اپنے رہن سہن کے لحاظ سے کوئی ایسی مناسب رقم بطور جیب خرچ معین کر سکتی ہے جس پر وہ اپنا چندہ ادا کر سکے۔
اگر کوئی شخص جس نے کسی وجہ سے چندہ عام میں معافی حاصل کر رکھی ہو، کیا وہ بعد میں وصیت کر سکتا ہے؟ –
اگر کسی دوست نے قبل از وصیت چندہ عام میں اپنی کسی مجبوری کے تحت حضرت خلیفہ المسیح سے معافی حاصل کی ہو اور پھر وہ چندہ عام باقاعدہ ادا کر رہے ہوں، تو وصیت کرنے میں کوئی قاعدہ مانع نہیں۔
کیا مقروض کی حالت میں وصیت کرنا جائز ہے؟ –
اگر وصیت کنندہ کی آمد اور جائیداد کے ساتھ دیگر شرائط مکمل ہیں تو وصیت کرنے میں کوئی قاعدہ روک نہیں ہے اور قرض وصیت کی راہ میں روک نہیں ہے۔ کیونکہ قرض کی زندگی میں تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ مقروض کی حالت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگر تو قرض لے کر کوئی جائیداد بنائی ہے جس سے آمد ہو رہی ہے یا قرضہ لے کر کوئی کاروبار شروع کیا ہے اور اس سے آمد ہو رہی ہے تو ایسی صورت میں وصیت کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کسی فرد جماعت کی اپنی کوئی آمد اور جائیداد نہیں اور اپنے مستقل گزارہ کے لئے قرض پر انحصار کر رہا ہے تو ایسے شخص پر وصیت کرنا لازم نہیں ہے۔ اور اس کی وصیت منظور نہیں ہو سکتی۔
اعلان وصیت کی کیا شرح ہے؟ –
وصیت کی تشہیر کے اخراجات کیلئے کوئی رقم معین نہیں ہے۔ ملکی حالات کے مطابق اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ امیر / صدر جماعت مرکز کو اس بارہ
میں سفارش پیش کر کے منظوری لیتے ہیں۔
چندہ شرط اول کی کیا شرح ہے؟ –
چندہ شرط اول کے بارہ میں راہنما اصول یہی ہے کہ خواہشمند موصی اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے تاکہ قبرستان کی ترتیب و تزئین کے اخراجات کو پورا
کیا جاسکے۔ نیز بوقت ادائیگی اپنی آمد ، اثاثے اور مقبرہ موصیان کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
ترکہ کی تعریف کیا ہے اور اس میں کون کون سی اشیاء شامل ہیں؟ –
موصی کی وفات پر اس کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ اس کا ترکہ شمار ہو گی۔ اس جائیداد میں موصی کا مکان، زمین، زیورات، نقدر قم، بانڈز، شیئرز وغیرہ سب شامل ہیں۔ غرضیکہ وہ سب اشیاء جو ورثاء میں قابل تقسیم شمار ہوتی ہیں وہ موصی کا ترکہ ہے۔ تاہم حصہ جائیداد کی ادائیگی کیلئے ان میں سے گھریلو استعمال کی ضروری اشیاء مستثنی ہیں۔
جماعتی نظام کے تحت کی گئی وصیت اور مقامی طور پر کی گئی کسی دوسری وصیت کی صورت میں کیا شکل بنے گی؟ –
: ہر ایک موصی جماعتی نظام کے تحت کی گئی وصیت کی تعمیل کا مکمل طور پر پابند ہو گا اور اس پر حسب تحریر عمل ہو گا۔ وصیت کنندہ سے اسی لئے جماعتی نظام کے تحت یہ تحریر لی جاتی ہے کہ یہ اس کی آخری وصیت ہو گی۔ یعنی وہ بعد میں کوئی ایسی وصیت نہیں کر سکتا جو کسی صورت میں اس وصیت پر اثر انداز ہو سکے۔ لہذا مقامی طور پر کی گئی کوئی وصیت جماعتی نظام کے تحت کی گئی وصیت سے متصادم نہ ہو سکے گی۔ بلکہ صدر انجمن کے حق میں کیا گیا حصہ مقامی وصیت میں ایک قرض کے طور پر ظاہر ہونا چاہیے۔
